Orhan

Add To collaction

سنگ مر مر

سنگ مر مر
 از قلم اسامہ رحمن مانی 
قسط نمبر12

السّلام علیکم۔۔۔باجی وہ کل کچھ مہمان آ رہے ہیں اِن کے ابو کے۔۔۔تو اگر ہو سکے تو آپ اگلے اتوار کو آ جائیں۔۔۔
اوہ اچھا۔۔۔ٹھیک ہے ہم اگلے اتوار کو آ جائیں گے۔۔۔ساجدہ بیگم کی بات سن کر دوسری جانب سے رضیہ بیگم نے جواب دیا۔۔۔
ویسے اِن کے ابو۔۔۔عمیر کو داماد بنانا نہیں چاہتے۔۔۔مجھے خدشہ ہے کہیں وہ یہ رشتہ۔۔۔اُن نئے مہمانوں کے ساتھ نہ جوڑ لیں۔۔۔
یہ تم کیا کہہ رہی ہو ساجدہ۔۔۔ایک بات میں صاف صاف بتا دوں۔۔۔اگر ایمان کا رشتہ عمیر سے نہ ہوا نہ تو یاد رکھو پھر میرا تم سے کوئی تعلق نہیں رہے گا۔۔۔انہوں نے سپاٹ لہجے میں کہا۔۔۔
اچھا ابھی عمیر کو مت بتائیے گا پلیز۔۔۔ وہ بولیں
انہیں بھی عمیر کی خصلتیں اچھی طرح معلوم تھیں۔۔۔لیکن دوسری جانب سے رابطہ منقطع ہو چکا تھا۔۔۔
ساجدہ بیگم سر پیٹ کر رہ گئیں۔۔۔اپنے شوہر کو سمجھاؤں یا بہن کو راضی کروں۔۔۔انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔۔وہ جھنجھلا کر رہ گئیں۔۔۔
___________________________
اتوار آ گیا۔۔۔
فیصل اپنے والدین کے ساتھ ایمان کے گھر پہنچا۔۔۔
اچھا تو کیا کرتی ہے آپ کی بیٹی۔۔۔شعیب مرزا نے پوچھا۔۔۔
کچھ بھی کرتی ہو یہ رشتہ نہیں ہو سکتا۔۔۔
عمیر کسی غنڈے بدمعاش کی طرح اندر داخل ہوتے ہوئے بولا۔۔۔
یہ کیا بد تمیزی ہے عمیر۔۔۔سلیم اختر نے کرخت لہجے میں کہا۔۔۔
ایمان کا رشتہ میرے ساتھ ہو چکا ہے خالو جان آپ نے بتایا نہیں ان کو۔۔۔
کیا بکواس کر رہے ہو عمیر۔۔۔ان کا ہاتھ اٹھتے اٹھتے رہ گیا۔۔۔
یہ لڑکا کون ہے بھائی صاحب۔۔۔
میں ایمان کا کزن ہوں انکل۔۔۔اور ایمان کی شادی مجھ سے ہی ہو گی یہ بات سارے کان کھول کر سن لو۔۔۔
وہ سب کی جانب انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے تیز تیز قدم اٹھاتا باہر نکل گیا۔۔۔
یہ طوفان بدتمیزی برداشت کرنا شعیب مرزا کے بس کی بات نہ تھی۔۔۔انہوں نے اپنی اہلیہ کا ہاتھ زور سے تھاما اور یہ کہتے ہوئے باہر نکلنے لگے کہ پہلے آپ اپنے گھر والوں کو مہمانوں کی تمیز سکھائیے پھر بلا لینا اپنے گھر۔۔۔
ارے بھائی صاحب آپ ناراض مت ہوں وہ لڑکے کا تو ذہنی توازن خراب ہے۔۔۔سلیم اختر نے اپنے تئیں معقول بہانہ بنانے کی کوشش کی۔۔۔
کچھ بھی ہو۔۔۔ہم خاندانی لوگ ہیں۔۔۔رشتہ کرنے آئے تھے خاندانی دشمنیاں مول لینے نہیں۔۔۔
سلیم اختر کسی طرح انہیں روک نہ سکے۔۔۔
میں اس لڑکے کو چھوڑوں گا نہیں۔۔۔
دروازہ دھڑام سے بند کر کے وہ بھی عمیر کے پیچھے اس کے گھر نکل گئے۔۔۔لیکن وہ انہیں گھر میں ملتا تب نا۔۔۔
___________________________
یہ کیا ہو گیا فیصل۔۔۔اچھا خاصا ہمارا رشتہ ہو جاتا۔۔۔اگر وہ بد بخت نہ آتا تو۔۔۔ایمان روتے ہوئے فیصل سے فون پر کہہ رہی تھی۔۔۔
فکر نہ کرو۔۔۔میں کوشش کروں گا امی ابو کو منانے کی۔۔۔
اور اس عمیر کو تو میں دیکھ لیتا ہوں۔۔۔سمجھتا کیا ہے خود کو۔۔۔اب میں اسے بتاؤں گا کہ میں کیا ہوں۔۔۔وہ الفاظ چبا چبا کر بول رہا تھا۔۔۔
اور اگر انکل آنٹی نہیں مانے تو۔۔۔؟
میں کہہ رہا ہوں نا وہ مان جائیں گے۔۔۔
___________________________
ابو وہ لڑکا جھوٹ بول رہا تھا۔۔۔ایمان کا رشتہ کسی سے نہیں ہوا۔۔۔
خاموش ہو جاؤ فیصل۔۔۔تمہارے لیے کوئی لڑکیوں کی کمی نہیں ہے کہ ہم اسی جگہ دوبارہ جائیں اتنی ذلالت کے بعد بھی۔۔۔اور تمہیں کیسے یقین ہے کہ نہیں ہوا رشتہ۔۔۔ایسے لوگوں کا بھروسہ نہیں کب پیسہ دیکھ کر ڈول جائیں۔۔۔
ابو وہ ایسے نہیں ہیں۔۔۔
اچھا۔۔۔تمہیں یہ دو چار دن کی محبت میں ان کا خاندان تک معلوم ہو گیا۔۔۔
اوف... چلو تھوڑا غصہ ٹھنڈا ہو جانے دو میں پھر بات کروں گا۔۔۔اسے یقین تھا کہ وہ دوبارہ قائل کر لے گا اپنے والد کو۔۔۔
فی الحال اس نے وہاں سے جانا ہی مناسب سمجھا۔۔۔
___________________________
ہیلو آرزو...تم کچھ دیر کے لیے ہوٹل آ سکتی ہو...
مجھے کچھ ضروری کام ہے تم سے۔۔۔
ہوٹل پہنچتے ہی اس نے آرزو کو وہاں بلا لیا۔۔۔
تھوڑی دیر میں وہ اس کے سامنے تھی۔۔۔
آرزو مجھے تم سے بہت خاص بات کرنی ہے۔۔۔لیکن۔۔۔مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔کہ میں سے کہوں۔۔۔
جو کہنا ہے کہہ دو فیصل۔۔۔اب تو میں کچھ بھی سن سکتی ہوں۔۔۔
فیصل خاموش رہا۔۔۔
دراصل ایمان چاہتی ہے کہ میں۔۔۔اب تم سے کبھی نہ ملوں۔۔۔
اس لیے میں نے تمہیں آخری بار ملنے کے لیے بلایا ہے۔۔۔
وہ یہ کہہ کر چپ ہو گیا۔۔۔
آرزو کا چہرہ بتا رہا تھا کہ جو کچھ اس نے ہارنا تھا ہار دیا۔۔۔اب اس کو کس بات کا خوف، کس چیز کا دکھ، کسی کی بے رخی، کسی سے تعلق ٹوٹنا، کوئی معنی نہیں رکھتا، اب تو چاہے وہ پوری دنیا جیت بھی جائے تو اس کو خوشی نہ ہو۔۔۔
مجھے بہت شرمندگی ہے مگر۔۔۔میں مجبور ہوں۔۔۔اس کی خاموشی دیکھ کر فیصل نے دوبارہ کہا۔۔۔
آرزو بنا کچھ کہے اٹھی اور مڑنے لگی۔۔۔
آرزو کچھ تو کہو پلیز۔۔۔اس طرح ناراض ہو کے نہ جاؤ۔۔۔
میں ناراض نہیں ہوں فیصل۔۔۔بس کچھ بولنے کی ہمت نہیں ہے اس وقت۔۔۔
آج آخری ملاقات بھی سہی۔۔۔آخری دفعہ آرزو نے فیصل کو دیکھا اور پھر مڑ گئی۔۔۔
وہ جا رہی تھی اور فیصل اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔۔۔
بڑے کم نظر تھے۔۔۔
گنہگار تھے ہم۔۔۔
مگر تیرے دل کو لبھاتے رہے ہیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہیں اب ملاقات
 ہو جائے ہم سے
بچا کر نظر کو 
گزر جائیے گا
___________________________
فیصل کو ہوٹل سے نکلے ابھی پندرہ منٹ ہی ہوئے تھے۔۔۔
وہ گھر کے راستے میں تھا جب ایک پولیس جیپ نے اس کا راستہ روکا۔۔۔وہ چونک گیا۔۔۔
مسٹر فیصل۔۔۔میں تکلیف کی معذرت چاہتا ہوں۔۔۔ ایک کانسٹیبل جیپ سے اترتے ہوئے بولا۔۔۔
آپ کو اسی وقت ہمارے ساتھ چلنا ہو گا۔۔۔
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔مجھے چلنا ہو گا؟ لیکن کیوں؟ 
دیکھئیے آپ کوئی چھوٹے بچے تو ہیں نہیں۔۔۔ قتل آپ کے ہوٹل میں ہوا ہے تو ظاہر ہے آپ کو ہی جانا پڑے گا۔۔۔
قتل۔۔۔؟کیسا قتل؟۔۔۔۔آپ ہوش میں تو ہیں؟ 
باقی باتیں وہاں ہمارے مہمان خانے میں کیجیے گا۔۔۔ آپ کے حق میں یہی بہتر ہے کہ آرام سے ہمارے ساتھ چلیں۔۔۔
 وہ ان کے ساتھ چل دیا۔۔۔
اس کا فون پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا۔۔۔
فیصل نے دیکھا کوئی نوجوان آن ڈیوٹی آفیسر سے کھسر پھسر کر رہا تھا۔۔۔اس کو وہ چہرہ کچھ جانا پہچانا لگ رہا تھا۔۔۔لیکن اندھیرے کی وجہ سے پتہ نہ چل سکا کہ وہ کون ہے۔۔۔
___________________________
دروازہ کھولو زرا۔۔۔میں باہر کھڑا ہوں۔۔۔رات بارہ بجے ایمان کو فیصل کا میسج آیا۔۔۔ایمان حیران ہو گئی کہ اس وقت فیصل یہاں کیا کرنے آیا ہے۔۔۔اس نے دبے قدموں جا کر دروازہ کھولا تو دیوار کے ساتھ کھڑے ایک نقاب پوش نے اس کے منہ پر پوری قوت سے ایک رومال رکھ کر سر کو پیچھے سے پکڑ کر دبایا۔۔۔وہ زرا بھی آواز نہ کر سکی اور چند لمحوں میں بے ہوش ہو گئی۔۔۔
___________________________
شعیب مرزا اور عظمی بیگم کی پریشانی میں بتدریج اضافہ ہو رہا تھا۔۔۔رات کے تین بجنے کو تھے۔۔۔فیصل اب تک گھر نہیں آیا اور اس نے کچھ بتایا بھی نہیں۔۔۔بیل جا رہی ہے لیکن فون ریسیو نہیں کر رہا۔۔۔آخر وجہ کیا ہے۔۔۔
شعیب مرزا ہوٹل کا چکر لگا کر آئے تو وہ بند پڑا تھا۔۔۔
بنا بتائے یہ کہاں چلا گیا۔۔۔اتنی غیر ذمہ داری۔۔۔کہیں جانا ہی تھا تو بتا کر چلا جاتا۔۔۔شعیب مرزا اب کافی غصے میں تھے۔۔۔
نہیں وہ یقیناً کسی مشکل میں ہے۔۔۔
ورنہ فون کیوں نہیں اٹھا رہا۔۔۔
آپ تھانے میں جا کر رپورٹ درج کرائیں ابھی جا کر۔۔۔
تھوڑا صبر کرو۔۔۔صبح ہو لینے دو۔۔۔اتنی جلد بازی ٹھیک نہیں۔۔۔کامران کی طرف گیا ہو گا اور کیا۔۔۔انہوں نے بیگم کو حوصلہ دینے کی کوشش کی۔۔۔لیکن انہوں نے زبردستی بھیج ہی دیا۔۔۔ان کے تھانے پہنچنے سے پہلے ہی فیصل کو وہ نوجوان  کسی نا معلوم مقام پر لے گیا تھا۔۔۔
اس کے چہرے پر نقاب تھا۔۔۔اور فیصل کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں۔۔۔وہ جاننا چاہتا تھا کہ یہ شخص کون ہے مگر یہ اس کے لیے ابھی ممکن نہ تھا۔۔۔وہ فیصل کو وہاں موجود اپنے آدمیوں کے حوالے کر کے چلا گیا۔۔۔
___________________________
انسپکٹر صاحب۔۔۔میرا نام شعیب مرزا ہے۔۔۔میرا بیٹا فیصل جو کہ پیراماؤنٹ ہوٹل کا مالک ہے اب تک گھر نہیں پہنچا۔۔۔نہ فون ریسیو کر رہا ہے۔۔۔
ارے بزرگو۔۔۔اتنی رات کو کیوں تکلیف کی آپ نے۔۔۔وہ اس وقت ہمارا مہمان ہے۔۔۔وہ ہنستے ہوئے بولا تو شعیب مرزا غصے سے آگ بگولا ہو گئے۔۔۔کہاں ہے فیصل۔۔۔؟اسے کیوں اندر کیا ہے ؟ کیا کیا ہے اس نے؟ وہ ہے کدھر؟ 
حوصلہ رکھو مرزا صاحب۔۔۔اس کے ہوٹل میں اسی کے افس میں اس کے ذاتی پستول سے قتل ہوا ہے۔۔۔گرفتاری تو بنتی ہے نا۔۔۔باقی جب تفتیش ہو گی تو بات سامنے آ جائے گی ساری۔۔۔تب تک آپ بھی سکون سے گھر میں رہیں۔۔۔یونہی خوار ہوتے پھریں گے۔۔۔
چلو بھئی مرزا صاحب کو باہر تک چھوڑ آؤ۔۔۔ اس نے اشارے سے سپاہی کو کہا تو سپاہی ان کو بازو سے تھام کر باہر چھوڑ آیا۔۔۔وہ بمشکل گاڑی چلا کر گھر پہنچے۔۔۔انہیں یوں منہ لٹکائے آتا دیکھ کر عظمی بیگم مزید پریشان ہو گئیں۔۔۔
کیا ہوا مرزا صاحب؟ سب خیر تو ہے نا؟ کہاں ہے فیصل؟ کچھ پتہ چلا؟
وہ گھبرائی ہوئی بولیں۔۔۔
اسے مرڈر کیس میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔۔۔اس کے آفس میں قتل ہوا ہے۔۔۔
کیا؟؟؟ ان کے منہ سے ایک چیخ نکلی۔۔۔یہ جھوٹ ہے۔۔۔ سر نفی میں ہلاتے ہوئے وہ چلائیں۔۔۔
حوصلہ رکھو بیگم۔۔۔صبح دیکھتا ہوں میں۔۔۔
لیکن وہ ماں ہو کر کیسے حوصلہ رکھتیں۔۔۔ان کی حالت غیر ہوتی چلی جا رہی تھی۔۔۔

   1
0 Comments